صنم کدوں میں چراغاں ہے مے کدوں کی طرف
نگاہ پیر مغاں کی سبیل جاری ہے
ہر اک فسوں ہے، مگر بے اثر ہے چارہ گرو
ادھر بھی تشنہ لبی مستقل نہیں جاتی
یہاں بھی نشۂ نا معتبر ہے چارہ گرو
میں ایسا جادۂ منزل گزشتہ ہوں جس کے
ہر ایک سنگ میں زخم سفر ہے چارہ گرو
ہر ایک دن کی طرح تھا وصال کا دن بھی
جلو میں فرش، نہ قدموں میں آسمان لیے
قریب آئے اور آ کر بدل گئے موسم
گزر گئی شب ہجراں بغیر جان لیے
کوئی سنے بھی تو کیا داستاں سناؤں اسے
حدیث شام و سحر مختصر ہے چارہ گرو
سوائے یہ کہ دل آشفتہ سر ہے چارہ گرو
نظم
چارہ گرو
مصطفی زیدی