روز و شب
حلقۂ آفات ہیں
ہر لحظہ جواں
سلسلہ وقت کی گردش کا یہاں
سب ہیں پابندیٔ اوقات زمانہ میں مگن
جان و تن فہم و خرد ہوش و گماں
تم ہی تنہا نہیں اس سیل رواں میں مجبور
میں بھی جیتی ہوں یہاں خود سے گریزاں ہو کر
پھر بھی اک لمحے کی فرصت جو میسر آئے
دل وہیں چپکے سے دھڑکن کو جگا دیتا ہے
تار راتوں میں بکھرتی ہیں روپہلی کرنیں
چاندنی پچھلی ملاقاتوں کے آئینے میں
روز آئندہ سے ملتی ہے گلے
کہتی ہے
ان کہی باتوں کی خوشبو سے معطر رکھنا
اپنی آواز ابھی
زندگی کتنی ہی بے مہر سہمی
پھر بھی بہار آئے گی
آنکھوں میں بسائے رکھنا میرے انداز ابھی
نظم
چاندنی کہتی ہے
ماہ طلعت زاہدی