EN हिंदी
چاند کی فریاد | شیح شیری
chand ki fariyaad

نظم

چاند کی فریاد

خالد عرفان

;

چاند نے مجھ سے کہا اے شاعر فکر ازل
میرے بارے میں بھی لکھ دے کوئی سنجیدہ غزل

ہر تعلق توڑ رکھا ہے ہلال عید سے
تجھ کو فرصت ہی نہیں ہے مہ وشوں کی دید سے

رسم دیدار ہلال عید افسانہ ہوئی
بام پر اس دم چڑھے، جس وقت فرزانہ ہوئی

لے کے نذرانہ کمیٹی نے اجالا ہے مجھے
گر نہیں نکلا، زبردستی نکالا ہے مجھے

میں جو بے مرضی نکل آیا تو ڈانٹا ہے بہت
مولوی نے مختلف خانوں میں بانٹا ہے بہت

اس کو مت فالو کرو، اس کی طریقت ماند ہے
تم بریلی کے ہو اور یہ دیوبندی چاند ہے

یہ جو خوں آلود ہے، افغانیوں کا چاند ہے
مختلف ٹکڑوں میں پاکستانیوں کا چاند ہے

اک کراچی سے ہے نکلا اک پس لاہور ہے
سندھ کا چاند اور ہے پنجاب کا چاند اور ہے

وہ جو ہمسائے کی بیوی ہے غزالہ چاند ہے
اور اس کے ساتھ جو رہتا ہے کالا چاند ہے

شاعروں نے اپنے شعروں میں بہت پیلا مجھے
میرؔ و غالبؔ نے بھی سمجھا خاک کا ڈھیلا مجھے

شعر میں، رشک قمر لیلیٰ کو فرمانے لگے
ٹیوب لائٹ کو ہلال عید بتلانے لگے

اپنی بیوی سے کہا انتیسویں کا چاند ہو
اور پڑوسن سے کہا تم چودھویں کا چاند ہو

عام سی عورت کو مہ پارہ بنا کر رکھ دیا
چاند کو ٹوٹا ہوا تارہ بنا کر رکھ دیا

چاند پر جس دن سے انساں کے قدم پڑنے لگے
چاندنی جن سے ہو ایسے بلب کم پڑنے لگے

میں زمیں سے دور ہوں لیکن بہت نزدیک ہوں
اے زمیں والو میں تم سے دور رہ کر ٹھیک ہوں

میں زمیں پر آ گیا تو ہر بشر لے جائے گا
سب سے پہلے ٹین پرسینٹ اپنے گھر لے جائے گا