چاند آج کی رات نہیں نکلا
وہ اپنے لحافوں کے اندر چہرے کو چھپائے بیٹھا ہے
وہ آج کی رات نہ نکلے گا
یہ رات بلا کی کالی رات
تارے اسے جا کے بلائیں گے
صحرا اسے آوازیں دے گا
بحر اور پہاڑ پکاریں گے
لیکن اس نیند کے ماتے پر کچھ ایسا نیند کا جادو ہے
وہ آج کی رات نہ نکلے گا
یہ رات بلا کی کالی رات
مغرب کی ہوائیں چیخیں گی بحر اپنا راگ الاپے گا
سائیں سائیں
تاریکی میں چپکے چپکے سنسان بھیانک ریتے پر
بڑھتا بڑھتا ہی جائے گا
موجوں کی مسلسل یورش میں
وہ گیت برابر گاتے ہوئے
جو کوئی نہیں اب تک سمجھا
سبزے میں ہوئی کچھ جنبش سی
وہ کانپا
آہیں بھرنے لگا
چاند آج کی رات نہیں نکلا
بھیڑیں سر نیچے ڈالے ہوئے
چپ چاپ آنکھوں کو بند کئے
میداں کی اداس خموشی میں فطرت کی کھلی چھت کے نیچے
کیوں سہمی سہمی پھرتی ہیں
اور باہم سمٹی جاتی ہیں
چاند آج کی رات نہیں نکلا
چاند آج کی رات نہ نکلے گا
نظم
چاند آج کی رات نہیں نکلا
تصدق حسین خالد