دیار برگ رعنا سے
گزرتا ہوں
تو مجھ کو خوف آتا ہے
دم لمس پریشاں سے
صدائے دیدۂ تر سے
میں اس کے رنگ کو
خوشبو کو اس کی نغمگی کو
حادثہ مجروح و داماندہ نہ کر ڈالو
خمار آرزو کی انتہا پر
میں قلم کرتا ہوں اپنی انگلیوں کو
پتلیوں کی بستیوں میں
جگمگاتے سب ستاروں کو بجھاتا ہوں
میں تعظیم ادائے نور کے ہنگام میں
مانوس چہروں
اور آوازوں کے ساحل پر
سر موج فراداں
روشنی کا جرا انجام پیتا ہوں
میں اپنے ہر سفر کی کی آخری قربت کی منزل ہوں
میں بزدل ہوں
نظم
بزدل
بلراج کومل