میں اگر شاعر تھا مولا تو مری عہدہ برائی کیا تھی آخر
شاعری میں متکفل تھا تو یہ کیسی نا مناسب احتمالی
کیا کروں میں
بند کر دوں اپنا باب لفظ و معنی
اور کہف کے غار میں جھانکوں جہاں بیٹھے ہوئے
اصحاب معبود حقیقی کی عبادت میں مگن ہیں
اور سگ تازی سا چوکیدار ان کے پاس بیٹھوں
وحدت و توحید کا پیغام سن کر
ورد کی صورت اسے دہراتا جاؤں
پوچھتا ہوں
کیا مری مشق سخن توحید کی ازلی شناسا
و قرض کے بگتاشن کی داعی نہیں ہے
میں تو راس المال سارا پیشگی ہی دے چکا ہوں
قرض کی واپس ادائی میں
مرے الفاظ کا سارا ذخیرہ لٹ چکا ہے
شعر کو حرف و ندا میں ڈھالنا
تسبیح و تہلیل و عبادت سے کہاں کمتر ہے مولا
شاعری جزویست از پیغمبری کس نے کہا تھا
میں تو اتنا جانتا ہوں
میری تمجید و پرستش لفظ کی قرات میں ڈھلتی ہے
تو پھر تخلیق کا واضح عمل تسبیح یا مالا کے منکوں کی طرح ہے
پھر خیال آتا ہے شاید میں غلط آموز ہوں
جو شعر گوئی کو عبادت جان کر اترا رہا ہوں
بوعلی ہوں جو غبا رناقہ میں گم ہو گیا ہے

نظم
بوعلی اندر غبار ناقہ گم
ستیہ پال آنند