وقت کو آتے نہ جاتے نہ گزرتے دیکھا
نہ اترتے ہوئے دیکھا کبھی الہام کی صورت
جمع ہوتے ہوئے اک جگہ مگر دیکھا ہے
شاید آیا تھا وہ خوابوں سے دبے پاؤں ہی
اور جب آیا خیالوں کو بھی احساس نہ تھا
آنکھ کا رنگ طلوع ہوتے ہوئے دیکھا جس دن
میں نے چوما تھا مگر وقت کو پہچانا نہ تھا
چند تتلائے ہوئے بولوں میں آہٹ بھی سنی
دودھ کا دانت گرا تھا تو وہاں بھی دیکھا
بوسکی بیٹی مری چکنی سی ریشم کی ڈلی
لپٹی لپٹائی ہوئی ریشمی تانگوں میں پڑی تھی
مجھ کو احساس نہیں تھا کہ وہاں وقت پڑا ہے
پالنا کھول کے جب میں نے اتارا تھا اسے بستر پر
لوری کے بولوں سے اک بار چھوا تھا اس کو
بڑھتے ناخونوں میں ہر بار تراشا بھی تھا
چوڑیاں چڑھتی اترتی تھیں کلائی پہ مسلسل
اور ہاتھوں سے اترتی کبھی چڑھتی تھیں کتابیں
مجھ کو معلوم نہیں تھا کہ وہاں وقت لکھا ہے
وقت کو آتے نہ جاتے نہ گزرتے دیکھا
جمع ہوتے ہوئے دیکھا مگر اس کو میں نے
اس برس بوسکی اٹھارہ برس کی ہوگی
نظم
بوسکی
گلزار