اب یہ مسافت کیسے طے ہو اے دل تو ہی بتا
کٹتی عمر اور گھٹتے فاصلے پھر بھی وہی صحرا
چیت آیا چیتاونی بھیجی اپنا وچن نبھا
پت جھڑ آئی پتر لکھے آ جیون بیت چلا
خوشیوں کا مکھ چوم کے دیکھا دنیا مان بھری
دکھ وہ سجن کٹھور کہ جس کو روح کرے سجدہ
اپنا پیکر اپنا سایہ کالے کوس کٹھن
دوری کی جب سنگت ٹوٹی کوئی قریب نہ تھا
اپنے گرد اب اپنے آپ میں گھلتی سوچ بھلی
کس کے دوست اور کیسے دشمن سب کو دیکھ لیا
کانچ کی اک دیوار زمانہ آمنے سامنے ہم
نظروں سے نظروں کا بندھن جسم سے جسم جدا
راہیں دھڑکیں شاخیں کڑکیں اک اک ٹیس اٹل
کتنی تیز چلی ہے اب کے دھول بھری ہوا
دکھڑے کہتے لاکھوں مکھڑے کس کس کی سنئے
بولی تو اک اک کی ویسی بانی سب کی جدا
نظم
بول انمول
مجید امجد