تمہارے لہجے میں جو گرمی و حلاوت ہے
اسے بھلا سا کوئی نام دو وفا کی جگہ
غنیم نور کا حملہ کہو اندھیروں پر
دیار درد میں آمد کہو مسیحا کی
رواں دواں ہوئے خوشبو کے قافلے ہر سو
خلائے صبح میں گونجی سحر کی شہنائی
یہ ایک کہرا سا، یہ دھند سی جو چھائی ہے
اس التہاب میں، اس سرمگیں اجالے میں
سوا تمہارے مجھے کچھ نظر نہیں آتا
حیات نام ہے یادوں کا، تلخ اور شیریں
بھلا کسی نے کبھی رنگ و بو کو پکڑا ہے
شفق کو قید میں رکھا صبا کو بند کیا
ہر ایک لمحہ گریزاں ہے، جیسے دشمن ہے
نہ تم ملو گی نہ میں، ہم بھی دونوں لمحے ہیں
وہ لمحے جا کے جو واپس کبھی نہیں آتے!
نظم
بنت لمحات
اختر الایمان