EN हिंदी
بیویاں | شیح شیری
biwiyan

نظم

بیویاں

نشتر امروہوی

;

شادی کے بعد گھر میں جب آتی ہیں بیویاں
شرم و حیا کا ڈھونگ رچاتی ہیں بیویاں

پہلے تو شوہروں کو پٹاتی ہیں بیویاں
تگنی کا ناچ پھر یہ نچاتی ہیں بیویاں

ہر شب شب برات بناتی ہیں بیویاں
کچھ دن کے بعد چھکے چھڑاتی ہیں بیویاں

پہلے پہل تو کہتی ہیں تم ہو مرے بلم
تم مل گئے تو ہو گئے دنیا کے دور غم

تم پر ہزار جان سے قربان میں صنم
کچھ دن کے بعد کہتی ہیں شوہر کو پھر خصم

پہلے تو خوب سر پہ چڑھاتی ہیں بیویاں
قدموں میں اس کے بعد گراتی ہیں بیویاں

کھا کھا کے گوشت ویٹ نہ اپنا بڑھائیے
جو میں بنا رہی ہوں وہ چپ چاپ کھائیے

اس وقت گھر میں آئیے اس وقت جائیے
جانا کہاں ہے جانے سے پہلے بتائیے

اس طرح کنٹرول میں لاتی ہیں بیویاں
حاکم کو بھی غلام بناتی ہیں بیویاں

وہ سنتری ہو کوئی کہ ہو کوئی منتری
ہوتا ہے حاوی سب پہ ہی احساس کمتری

کیسا بھی شیر دل ہو بہادر ہو یا جری
رہتی ہے جن کے خوف سے دنیا ڈری ڈری

ایسے بہادروں کو دباتی ہیں بیویاں
پھر انگلیوں پہ ان کو نچاتی ہیں بیویاں

بچوں کی بات چھوڑیئے بیگم کا ہے یہ حال
غصے میں یوں سمجھئے کہ ہر شے پہ ہے زوال

سمجھائے کون ایسے میں کس کی ہے یہ مجال
اس شور و غل میں شاعری کرنا بھی ہے محال

قینچی صفت زبان چلاتی ہیں بیویاں
ٹر ٹر سے پھر دماغ دکھاتی ہیں بیویاں

سسرال میں ہو شادی تو خرچہ ہو کم جناب
میکے میں ہے تو خرچ یہ کرتی ہیں بے حساب

وہ ساس یا سسر ہوں کہ دیور ہو سب خراب
آیا ہوا ہے میکے سے کتا بھی لا جواب

کچھ اس طرح دماغ پہ چھاتی ہیں بیویاں
شوہر کے رشتے دار چھڑاتی ہیں بیویاں