درد بے رحم ہے
جلاد ہے درد
درد کچھ کہتا نہیں
سنتا نہیں
درد بس ہوتا ہے
درد کا مارا ہوا
روندا ہوا
جسم تو اب ہار گیا
روح ضدی ہے
لڑے جاتی ہے
ہانپتی
کانپتی
گھبرائی ہوئی
درد کے زور سے
تھرائی ہوئی
جسم سے لپٹی ہے
کہتی ہے
نہیں چھوڑوں گی
موت
چوکھٹ پہ کھڑی ہے کب سے
صبر سے دیکھ رہی ہے اس کو
آج کی رات
نہ جانے کیا ہو
نظم
بیمار کی رات
جاوید اختر