EN हिंदी
بیج اندر ہے | شیح شیری
bij andar hai

نظم

بیج اندر ہے

رفیق سندیلوی

;

بیج اندر ہے
لیکن میں باہر ہوں

اپنی زمیں سے
فقط مشت دو مشت اوپر

خلا میں اگا ہوں
مری کوئی جڑ ہی نہیں ہے

نہیں علم
تالیف کی روشنی نے

ہوا اور پانی نے کس طرح سینچا
نمی کیسے میرے مساموں میں آئی

جدائی
سہی میں نے کیسے

مقرر جو ازلوں سے تھا
بیچ کا فاصلہ

وسط نا وسط کا مرحلہ
میں نے کیسے گوارا کیا

آسماں کے تلے
میں نے دھرتی پہ پھیلے ہوئے

ایک سوندھی سی خوشبو میں لپٹے ہوئے
لہلہاتے جہانوں کا

خشک اور بنجر زمانوں کا
کیسے نظارہ کیا

چند کانٹوں کی سوئی سے
کونین کے

اپنے قطبین کے
پیچ و خم میں

وجود و عدم میں
جلی اور خفی سارے ابعاد کی سمت

کیسے اشارہ کیا
میں نے کیسے بہ یک وقت

اپنی فنا اور بقا سے کنارہ کیا
بیج اندر ہے

کیسے سمجھ پائے گا
بے نمو و نمو کار دنیا میں

مجھ جیسے پودے نے
کیسے گزارا کیا