EN हिंदी
بھوت | شیح شیری
bhut

نظم

بھوت

پیغام آفاقی

;

ہم وہاں پہ بیٹھے تھے
بعد میں ہوا معلوم

میں وہاں اکیلا تھا
بھوت میں نے دیکھے تھے

خوف سے میں لرزا تھا
اور آج تک تب سے دل مرا دھڑکتا ہے

جب بھی کوئی دیتا ہے دل کے پردے پر دستک
مجھ کو ایسا لگتا ہے یہ ہوا کا جھونکا تھا

ہم تو جانے والے تھے ایک ساتھ ہی لیکن
جب وہاں پہ پہنچے ہم میں وہاں اکیلا تھا

دور دور تک کوئی سایہ تک نہیں پایا
اک عجیب عالم تھا

اک عجیب دھوکا تھا