EN हिंदी
بھوک | شیح شیری
bhuk

نظم

بھوک

جاوید اختر

;

آنکھ کھل گئی میری
ہو گیا میں پھر زندہ

پیٹ کے اندھیروں سے
ذہن کے دھندلکوں تک

ایک سانپ کے جیسا
رینگتا خیال آیا

آج تیسرا دن ہے۔۔۔۔۔۔ آج تیسرا دن ہے
اک عجیب خاموشی

منجمد ہے کمرے میں
ایک فرش اور اک چھت

اور چار دیواریں
مجھ سے بے تعلق سب

سب مرے تماشائی
سامنے کی کھڑکی سے

تیز دھوپ کی کرنیں
آ رہی ہیں بستر پر

چبھ رہی ہیں چہرے میں
اس قدر نکیلی ہیں

جیسے رشتے داروں کے
طنز میری غربت پر

آنکھ کھل گئی میری
آج کھوکھلا ہوں میں

صرف خول باقی ہے
آج میرے بستر میں

لیٹا ہے مرا ڈھانچہ
اپنی مردہ آنکھوں سے

دیکھتا ہے کمرے کو
آج تیسرا دن ہے

آج تیسرا دن ہے
دوپہر کی گرمی میں

بے ارادہ قدموں سے
اک سڑک پہ چلتا ہوں

تنگ سی سڑک پر ہیں
دونوں سمت دوکانیں

خالی خالی آنکھوں سے
ہر دکان کا تختہ

صرف دیکھ سکتا ہوں
اب پڑھا نہیں جاتا

لوگ آتے جاتے ہیں
پاس سے گزرتے ہیں

پھر بھی کتنے دھندلے ہیں
سب ہیں جیسے بے چہرہ

شور ان دکانوں کا
راہ چلتی اک گالی

ریڈیو کی آوازیں
دور کی صدائیں ہیں

آ رہی میلوں سے
جو بھی سن رہا ہوں میں

جو بھی دیکھتا ہوں میں
خواب جیسا لگتا ہے

ہے بھی اور نہیں بھی ہے
دوپہر کی گرمی میں

بے ارادہ قدموں سے
اک سڑک پہ چلتا ہوں

سامنے کے نکڑ پر
نل دکھائی دیتا ہے

سخت کیوں ہے یہ پانی
کیوں گلے میں پھنستا ہے

میرے پیٹ میں جیسے
گھونسہ ایک لگتا ہے

آ رہا ہے چکر سا
جسم پر پسینہ ہے

اب سکت نہیں باقی
آج تیسرا دن ہے

آج تیسرا دن ہے
ہر طرف اندھیرا ہے

گھاٹ پر اکیلا ہوں
سیڑھیاں ہیں پتھر کی

سیڑھیوں پہ لیٹا ہوں
اب میں اٹھ نہیں سکتا

آسماں کو تکتا ہوں
آسماں کو تھالی میں

چاند ایک روٹی ہے
جھک رہی ہیں اب پلکیں

ڈوبتا ہے یہ منظر
ہے زمین گردش میں

میرے گھر میں چولھا تھا
روز کھانا پکتا تھا

روٹیاں سنہری ہیں
گرم گرم یہ کھانا

کھل نہیں رہی آنکھیں
کیا میں مرنے والا ہوں

ماں عجیب تھی میری
روز اپنے ہاتھوں سے

مجھ کو وہ کھلاتی تھی
کون سرد ہاتھوں سے

چھو رہا ہے چہرے کو
اک نوالا ہاتھی کا

اک نوالا گھوڑے کا
اک نوالا بھالو کا

موت ہے کہ بے ہوشی
جو بھی غنیمت ہے

موت ہے کہ بے ہوشی
جو بھی ہے غنیمت ہے

آج تیسرا دن تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آج تیسرا دن تھا