یہ اندھیری رات یہ ساری فضا سوئی ہوئی
پتی پتی منظر خاموش میں کھوئی ہوئی
موجزن ہے بحر ظلمت تیرگی کا جوش ہے
شام ہی سے آج قندیل فلک خاموش ہے
چند تارے ہیں بھی تو بے نور پتھرائے ہوئے
جیسے باسی ہار میں ہوں پھول کمہلائے ہوئے
کھپ گیا ہے یوں گھٹا میں چاندنی کا صاف رنگ
جس طرح مایوسیوں میں دب کے رہ جائے امنگ
امڈی ہے کالی گھٹا دنیا ڈبونے کے لئے
یا چلی ہے بال کھولے رانڈ رونے کے لئے
جتنی ہے گنجان بستی اتنی ہی ویران ہے
ہر گلی خاموش ہے ہر راستہ سنسان ہے
اک مکاں سے بھی مکیں کی کچھ خبر ملتی نہیں
چلمنیں اٹھتی نہیں زنجیر در ہلتی نہیں
سو رہے ہیں مست و بے خود گھر کے کل پیر و جواں
ہو گئی ہیں بند حسن و عشق میں سرگوشیاں
ہاں مگر اک سمت اک گوشے میں کوئی نوحہ گر
لے رہی ہے کروٹوں پر کروٹیں دل تھام کر
دل سنبھلتا ہی نہیں ہے سینۂ صد چاک میں
پھول سا چہرہ اٹا ہے بیوگی کی خاک میں
اڑ چلی ہے رنگ رخ بن کر حیات مستعار
ہو رہا ہے قلب مردہ میں جوانی کا فشار
حسرتیں دم توڑتی ہیں یاس کی آغوش میں
سیکڑوں شکوے مچلتے ہیں لب خاموش میں
عمر آمادہ نہیں مردہ پرستی کے لئے
بار ہے یہ زندہ میت دوش ہستی کے لئے
چاہتی ہے لاکھ قابو دل پہ پاتی ہی نہیں
ہائے رے ظالم جوانی بس میں آتی ہی نہیں
تھرتھرا کر گرتی ہے جب سونے بستر پر نظر
لے کے اک کروٹ پٹک دیتی ہے وہ تکیہ پہ سر
جب کھنک اٹھتی ہیں سوتی لڑکیوں کی چوڑیاں
آہ بن کر اٹھنے لگتا ہے کلیجہ سے دھواں
ہو گئی بیوہ کی خاطر نیند بھی جیسے حرام
مختصر سا عہد وصلت دے گیا سوز دوام
دوپہر کی چھاؤں دور شادمانی ہو گیا
پیاس بھی بجھنے نہ پائی ختم پانی ہو گیا
لے رہی ہے کروٹوں پر کروٹیں با اضطرار
آگ میں پارہ ہے یا بستر پہ جسم بے قرار
پڑ گئی اک آہ کر کے رو کے اٹھ بیٹھی کبھی
انگلیوں میں لے کے زلف خم بہ خم اینٹھی کبھی
آ کے ہونٹوں پر کبھی مایوس آہیں تھم گئیں
اور کبھی سونی کلائی پر نگاہیں جم گئیں
اتنی دنیا میں کہیں اپنی جگہ پاتی نہیں
یاس اس حد کی کہ شوہر کی بھی یاد آتی نہیں
آ رہے ہیں یاد پیہم ساس نندوں کے سلوک
پھٹ رہا ہے غم سے سینہ اٹھ رہی ہے دل میں ہوک
اپنی ماں بہنوں کا بھی آنکھیں چرانا یاد ہے
ایسی دنیا میں کسی کا چھوڑ جانا یاد ہے
باغباں تو قبر میں ہے کون اب دیکھے بہار
خود اسی کو تیر اس کے کرنے والے ہیں شکار
جب نظر آتا نہیں دیتا کوئی بیکس کا ساتھ
زہر کی شیشی کی جانب خودبخود بڑھتا ہے ہاتھ
دل تڑپ کر کہہ رہا ہے جلد اس دنیا کو چھوڑ
چوڑیاں توڑیں تو پھر زنجیر ہستی کو بھی توڑ
دم اگر نکلا تو کھوئی زندگی مل جائے گی
یہ نہیں تو خیر تنہا قبر ہی مل جائے گی
واں تجھے ذلت کی نظروں سے نہ دیکھے گا کوئی
چاہے ہنسنا چاہے رونا پھر نہ روکے گا کوئی
واں سب اہل درد ہیں سب صاحب انصاف ہیں
رہبر آگے جا چکا راہیں بھی تیری صاف ہیں
دل انہیں باتوں میں الجھا تھا کہ دم گھبرا گیا
ہاتھ لے کر زہر کی شیشی لبوں تک آ گیا
تلملاتی آنکھ جھپکاتی جھجکتی ہانپتی
پی گئی کل زہر آخر تھرتھراتی کانپتی
موت نے جھٹکا دیا کل عضو ڈھیلے ہو گئے
سانس اکھڑی، نبض ڈوبی، ہونٹ نیلے ہو گئے
آنکھ جھپکی اشک ٹپکا ہچکی آئی کھو گئی
موت کی آغوش میں اک آہ بھر کر سو گئی
اور کر اک آہ سلگے ہند کی رسموں کا دام
اے جوانا مرگ بیوہ تجھ پہ کیفیؔ کا سلام
نظم
بیوہ کی خود کشی
کیفی اعظمی