شام ہوتی ہے سحر ہوتی ہے یہ وقت رواں
جو کبھی سنگ گراں بن کے مرے سر پہ گرا
راہ میں آیا کبھی میری ہمالہ بن کر
جو کبھی عقدہ بنا ایسا کہ حل ہی نہ ہوا
اشک بن کر مری آنکھوں سے کبھی ٹپکا ہے
جو کبھی خون جگر بن کے مژہ پر آیا
آج بے واسطہ یوں گزرا چلا جاتا ہے
جیسے میں کشمکش زیست میں شامل ہی نہیں!
نظم
بے تعلقی
اختر الایمان