EN हिंदी
بے روزگار | شیح شیری
be-rozgar

نظم

بے روزگار

سراج فیصل خان

;

تو
اور اک بار

پھر
میرا

سلیکشن
ہو نہیں پایہ

میری
ہر ایک

ناکامی پہ
رسی مسکراتی ہے

خوشی سے
اینٹھتی ہے

اور
نئے بل پڑتے جاتے ہیں

مجھے اپنا گلا گھٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے
میں

اپنی
چھت سے

جب
نیچے گلی میں

جھانکتا ہوں
تو

یہ لگتا ہے
سڑک مجھ کو

اچھل کر
کھینچ لے جائے گی

اپنے سنگ
ڈرا دیتا ہے یہ احساس

اور
مجھ کو پسینہ سے لہو کی گندھ آتی ہے

اگر
میں دور سے بھی

ریل کی
آواز سنتا ہوں

تو
کوئی

اجنبی
ہیبت مجھے جھکجھور دیتی ہے

اذیت
خون کے

کتروں میں
یوں کروٹ بدلتی ہے

کہ میں ٹکڑوں میں بٹتے روح کو محسوس کرتا ہوں
میرے کمرے کا

سلینگ فین
ہنستا ہے

میری جانب
لپکتا ہے

میں ڈر سے
کانپ جاتا ہوں

سمٹ کر
بیٹھ جاتا ہوں

کسی کونے میں کمرے کے
یوں لگتا ہے

کئی صدیوں کا لمبا فاصلہ طے کر کے میں نے صبح پائی ہے
مگر

میں سوچتا ہوں
کب تلک آخر

میں
اپنے آپ کو

خود سے بچاؤں‌ گا
محض

اک اور ناکامی
میں اب کے ٹوٹ جاؤں گا

بدن سے چھوٹ جاؤں گا