EN हिंदी
بے نام سلسلے | شیح شیری
be-nam silsile

نظم

بے نام سلسلے

شارق عدیل

;

ابھی میں برف سے لپٹے ہوئے جزیرے پر
خود اپنے آپ سے ملنے کی آرزو لے کر

لگا ہوا ہوں سویرے کو شام کرنے میں
سمندروں میں ابھرتے بھنور بلاتے ہیں

افق سے آتی صدائیں بھی کھینچتی ہیں مگر
میں اپنی سوچ سے باہر نکل نہیں سکتا

عجیب خوابوں کا بے نام سلسلہ ہے یہ
کہ زندگی سے کوئی رابطہ نہیں ملتا

خود اپنی کھوج میں مصروف رہنے والوں کو
کسی درخت کا سایا بھی یاں نہیں ملتا