EN हिंदी
بے نام | شیح شیری
be-nam

نظم

بے نام

ابرارالحسن

;

دریچے باز تھے
ٹھنڈی ہوا کی نرم دستک سے

نوائے نیم شب
آنکھیں ٹھٹھک کر کھل گئیں

مہتاب کے خاموش جادو سے
سمندر بھی ہمکتا تھا

مجھے وہ نام کیا دینا
جھلک خود اسم گر کی جس میں آتی ہو

مجھے کیوں قید کرتے ہو
میں مٹھی میں سما جاؤں

طلسمی طاقتیں بے آسرا بندوں کو دہلائیں
کہیں دیوار پر چسپاں

گریبانوں کی زینت میں
بلاؤں سے حفاظت کر سکوں

کیوں نام دیتے ہو
ہزاروں قرن ہا قرنوں سے

یوں ہی چاند برسا ہے
سمندر آہ بھرتا ہے

معطر پھول کے گجروں میں بس کر
فاصلوں کے لمس کی دوری تڑپتی ہے

مجھے محسوس کر لو
آنکھ بھر کر دیکھ لو

پھر نیند کی تہ میں
تھرکتے برگ آوارہ کی صورت

ڈوبتے جاؤ
مجھے بے نام رہنے دو