مجھ کو سونے دو
صدیوں جیسی گہری لمبی نیند
جس میں کوئی خواب نہ ہو
مجھ کو سونے دو
اس لڑکی کی نیند
جو اپنی آنکھیں
میری آنکھوں میں رکھ کر
بھول گئی ہے!
مجھ کو سونے دو
ان لوگوں کی نیند
جن کی آنکھوں میں
بادل اور پرندے اڑتے ہیں
دریا بہتے ہیں
لیکن وہ پیاسے رہتے ہیں
مجھ کو سونے دو
چاروں سمت بچھے صحراؤ!
میرے دل میں ایک سمندر ہے
مجھ کو اس میں اپنے
سارے خواب ڈبونے دو
مجھ کو رونے دو!
مجھ کو سونے دو!!
نظم
بے خوابی کی آکاس بیل پر کھلی خواہش
نصیر احمد ناصر