EN हिंदी
بے خیالی میں تخلیق | شیح شیری
be-KHayali mein taKHliq

نظم

بے خیالی میں تخلیق

سبیلہ انعام صدیقی

;

خیالات و احساس
جو بے ساختہ لکھ دیے ہیں

نہ جانے وہ کب سے دل و جاں کے اندر چھپے تھے
کسی راز جیسے

قلم بند ہونے کو بے چین تھے
کئی درد الجھے سوالات

جو صفحے پہ سجنے کو بیتاب تھے
وہ سب

قلم سے مرے موتیوں کی طرح
اب برسنے لگے ہیں

سبھی رقص کرنے لگے ہیں
مری چشم پر نم

جو سیلاب روکے ہوئے ہے
ستارے چمکتے ہیں میری پلک پر

انہیں میں رقم کر رہی ہوں
جو طوفان ہے موجزن میرے اندر

وہ ارمان وہ خواب
کئی لا شعوری مضامین بن کر

ورق در ورق جگمگانے لگے ہیں
سبھی رقص کرنے لگے ہیں

اور اب
اسی جذب و احساس کے زیر سایہ

غزل پھول بن کر مہکتی ہے
کبھی نظم گاتی ہے وہ گیت

کہ جو بے خیالی میں تخلیق ہو کر
بناتی ہے رنگین پیکر

یہ بزم سخن کو سجانے پہ مائل
خیالات سب رقص کرنے لگے ہیں

قلم سے مرے موتیوں کی طرح
اب برسنے لگے ہیں

سبھی رقص کرنے لگے ہیں