EN हिंदी
بے ارادہ زیست کیجے | شیح شیری
be-irada zist kije

نظم

بے ارادہ زیست کیجے

محمد انور خالد

;

اکیلا پن پرندے کا
پرندے کا اکیلا پن

سماعت گاہ ویرانی میں بلبل بولتی ہے
اکیلا پن گڈریے کا

کسی سادہ گڈریے کا اکیلا پن
وہ اس شب بھیڑیوں کے درمیاں تنہا نہیں ہوگا

اکیلا پن مسافر کا
کسی بھولے مسافر کا اکیلا پن

مسافر قوت پرواز سے مجبور ہے
آگے نکل جاتا ہے

ساحل پر پرندے گھاس پر ٹوٹے ہوئے پر دیکھتے ہیں
مسافر کے درمیاں تنہا نہیں ہوگا

اکیلا پن ستارے کا
ستارے کا اکیلا پن

ستارہ ٹوٹتا ہے راکھ ہو جاتا ہے
مٹی سب چھپا لیتی ہے

مٹی میں کوئی تنہا نہیں ہوتا
فنا تعمیل درس بے خودی ہے

بے ارادہ زیست کیجے
بے تقاضا پائیے

کوچۂ بنت سراۓ دہر میں چلئے کبھی سر سلامت آئیے
اور اک رقص فنا تعمیل درس بے خودی

چونٹیوں کے درمیاں بھیڑیوں کے درمیاں
مٹیوں کے سلسلوں کے درمیاں رقص فنا

بے ارادہ زیست کیجے