EN हिंदी
بے ہنر ساعتوں میں اک سوال | شیح شیری
be-hunar saaton mein ek sawal

نظم

بے ہنر ساعتوں میں اک سوال

جمیل الرحمن

;

نزول کشف کی رہ میں سفید دروازے
قدم بریدہ مسافر سے پوچھتے ہی رہے

ترے سفر میں تو اجلے دنوں کی بارش تھی
تری نگاہوں میں خفتہ دھنک نے کروٹ لی

بلا کی نیند میں بھی ہاتھ جاگتے تھے ترے
تمام پہلو مسافت کے سامنے تھے ترے

تری گواہی پہ تو پھول پھلنے لگتے تھے
ترے ہی ساتھ وہ منظر بھی چلنے لگتے تھے

ٹھہر گئے تھے جو بام زوال پر اک دن
ہنسے تھے کھل کے جو عہد کمال پر اک دن

ترے جنوں پہ قیامت گزر گئی کیسے
ریاضتوں کی وہ رت بے ثمر گئی کیسے