نزول کشف کی رہ میں سفید دروازے
قدم بریدہ مسافر سے پوچھتے ہی رہے
ترے سفر میں تو اجلے دنوں کی بارش تھی
تری نگاہوں میں خفتہ دھنک نے کروٹ لی
بلا کی نیند میں بھی ہاتھ جاگتے تھے ترے
تمام پہلو مسافت کے سامنے تھے ترے
تری گواہی پہ تو پھول پھلنے لگتے تھے
ترے ہی ساتھ وہ منظر بھی چلنے لگتے تھے
ٹھہر گئے تھے جو بام زوال پر اک دن
ہنسے تھے کھل کے جو عہد کمال پر اک دن
ترے جنوں پہ قیامت گزر گئی کیسے
ریاضتوں کی وہ رت بے ثمر گئی کیسے
نظم
بے ہنر ساعتوں میں اک سوال
جمیل الرحمن