زندگی کے ایسے دوراہے پر آ کر رک گیا ہوں
ہر مسافر
کہر آلودہ فضا میں
ہر قدم احساس کی ڈوری سے
انجانے سفر کے دھوپ چھاؤں ناپنے میں
ایک اندھے کی طرح
خالی ہواؤں میں چھڑی لہرا رہا ہے
جس طرح جلتے ہوئے معذور پتوں کا
ہوا کے رخ پر اٹھتا ہے دھواں
اوہام کی چادر چڑھانے
راستہ دکھلانے والے
چاند سورج اور ستاروں کے مزاروں پر
میں دوران سفر
کس دھند میں
آگے کا رستہ ڈھونڈھتا ہوں
راستہ بائیں جو جاتا ہے
سمندر پار
اس رستے کے متوازی کشادہ راستے
اک دوسرے کو کاٹتے ہیں
سارے رستے
ان بڑے رستوں کے اوپر چل رہے ہیں
اور
دائیں سمت جو رستہ گیا ہے
کتنا پر اسرار ہے
چڑھتا اترا
جال سا بنتا ہوا
چاروں طرف سے
ایک مرکز کی طرف جانے کا
سیدھا راستہ دکھلا رہا ہے
کیسا دوراہا ہے یہ
میں زندگی کے کیسے دوراہے پر
اپنا داہنا پاؤں اٹھائے
واہمے کے کہر میں
اپنی چھڑی لہرا رہا ہوں
نظم
واہمہ
یٰسین افضال