تھا درختوں کو ابھی عالم حیرت ایسا
جیسے دلبر سے یکایک کوئی ہو جائے دو چار
ڈالیاں ہلنے لگیں تیز ہوائیں جو چلیں
پتے پتے میں نظر آنے لگی تازہ بہار
سنسناہٹ ہوئی جھونکوں سے ہوا کے ایسی
چھٹ گئیں ہوں کہیں لاکھوں ہی ہوائی یکبار
رعد گرجا ارے وہ دیکھنا بجلی چمکی
ہلکی ہلکی سی وہ پڑنے لگی بوندوں کی پھوار
رات تاریک ہے آیا ہے امنڈ کر بادل
میں اکیلا نہ کوئی یار نہ کوئی غم خوار
سرد جھونکوں میں ہوا کے ہے لطافت اور دل
اس کا خواہاں ہے نہیں ملنے کے جس کے آثار
ایسی بے چینی خدایا نہ ہو دشمن کو نصیب
اس سے بد تر نہ کسی کو ہو الٰہی آزار
نظم
برسات اور شاعر
عظیم الدین احمد