EN हिंदी
برہنہ | شیح شیری
barahana

نظم

برہنہ

مجید امجد

;

فرنگی جریدوں کے اوراق رنگین
ہنستی، لچکتی، دھڑکتی، لکیریں

کٹیلے بدن تیغ کی دھار جیسے!
لہو رس میں گوندھے ہوئے جسم، ریشم کے انبار جیسے!

نگہ جن پہ پھسلے، وہ شانے وہ باہیں
مدور اٹھانیں، منور ڈھلانیں،

ہر اک نقش میں زیست کی تازگی ہے
ہر اک رنگ سے کھولتی آرزوؤں کی آنچ آ رہی ہے!

خطوط برہنہ کے ان آئینوں میں
حسیں پیکروں کے شفاف خاکے

کہ جن کے سجل روپ میں کھیلتی ہیں
وہ خوشیاں جو صدیوں سے بوجھل کے اوجھل رہی ہیں!

انہیں پھونک دے گی بے مہر دنیا
فرنگی جریدوں کے اوراق رنگین

کو اک بار حسرت سے تک لو
پھر ان کو حفاظت سے اپنے دلوں کے مقفل درازوں میں رکھ لو!