بند دریچے، جو کبھی بند نہیں ہوتے
جہاں کرنوں کے جھانکنے پر پہرے ہیں
اندھیری کوٹھریوں میں زباں خاموش، جسم بولتے ہیں
جب کوئی خواہش زادہ اپنی برہنہ خواہش لئے
کسی بند دریچے کا رخ کرتا ہے
تو پاکیزگی اور پیراہن
کونے میں بیٹھ کر بین کرتے ہیں
زخم آلود جسم کے اندر چیخیں کہرام برپا کر دیتی ہیں
اتنی نحیف چیخیں
کہ کسی کان پر وہ دستک نہیں دے پاتیں
روز ان گنت جسم تڑپتے ہیں
اور ان میں ڈھیروں خواہشیں دفن کی جاتی ہیں
نظم
بند دریچوں میں زندگی
منیر احمد فردوس