میں کہ خود اپنی ہی آواز کے شعلوں کا اسیر
میں کہ خود اپنی ہی زنجیر کا زندانی ہوں
کون سمجھے گا جہاں میں مرے زخموں کا حساب
کس کو خوش آئے گا اس دہر میں روحوں کا عذاب
کون آ کر مرے مٹنے کا تماشا دیکھے
کس کو فرصت کہ اجڑتی ہوئی دنیا دیکھے
کون بھڑکی ہوئی اس آگ کو اپنائے گا
جو بھی آئے گا مرے ساتھ ہی جل جائے گا
وہ گھڑی کون تھی جب مجھ کو ملا تھا بن باس
ایک جھونکا بھی ہوا کا نہ وطن سے آیا
نے کوئی نکہت گل اور نہ کوئی موج نسیم
پھر کوئی ڈھونڈنے مجھ کو نہ چمن سے آیا
میں وہ اک لعل ہوں جو بک گیا بازاروں میں
پھر کوئی پوچھنے مجھ کو نہ یمن سے آیا
یاد کرتے ہوئے اک یوسف گم گشتہ کو
کچھ دنوں روئی تو ہوگی مرے گھر کی دیوار
کچھ دنوں گاؤں کی گلیوں میں اداسی ہوگی
کچھ دنوں کھل نہ سکے ہوں گے ترے ہار سنگھار
کچھ دنوں کے لیے سنسان سا لگتا ہوگا
آم کے باغ میں بے چین پھری ہوگی بہار
میں نے اک پیڑ پہ جو نام لکھا تھا اپنا
کچھ دنوں زخم کے مانند وہ تازہ ہوگا
میرے سب دوست اسے دیکھ کے کہتے ہوں گے
جانے کس دیس میں بیچارہ بھٹکتا ہوگا
عمر بھر کون کسے یاد کیا کرتا ہے
ایک اک کر کے مجھے سب نے بھلایا ہوگا
ہائے ان کو بھی خبر کیا کہ وہ اک زخم نصیب
زندگی کے لیے نکلا تھا جو راہی بن کر
آج تک پا نہ سکا چشمۂ آب حیواں
اس کو سورج بھی ملے ہیں تو سیاہی بن کر
گھر سے لایا تھا جو کچھ طبع رواں ذہن رسا
ساتھ اس کے رہے اسباب تباہی بن کر
میرا یہ جرم کہ میں صاحب ادراک و شعور
میرا یہ عیب کہ اک شاعر و فن کار ہوں میں
مجھ کو یہ ضد ہے کہ میں سر نہ جھکاؤں گا کبھی
مجھ کو اصرار کہ جینے کا سزا وار ہوں میں
مجھ کو یہ فخر کہ میں حق و صداقت کا امیں
مجھ کو یہ زعم خود آگاہ ہوں خوددار ہوں میں
ایک اک موڑ پہ آلام و مصائب کے پہاڑ
ایک اک گام پہ آفات سے ٹکرایا ہوں
ایک اک زہر کو ہنس ہنس کے پیا ہے میں نے
ایک اک زخم کو چن چن کے اٹھا لایا ہوں
ایک اک لمحے کی زنجیر سے میں الجھا ہوں
ایک اک سانس پہ خود آپ سے شرمایا ہوں
یوں تو کہنے کی نہیں بات مگر کہتا ہوں
پیار کا نام کتابوں میں لکھا دیکھا ہے
جب کبھی ہاتھ بڑھایا ہے کسی کی جانب
فاصلہ اور بھی کچھ بڑھتا ہوا دیکھا ہے
بوند بھر دے نہ سکا کوئی محبت کی شراب
یوں تو مے خانہ کا مے خانہ لٹا دیکھا ہے
نظم
بن باس
خلیلؔ الرحمن اعظمی