بیٹھا ہے میرے سامنے وہ
جانے کسی سوچ میں پڑا ہے
اچھی آنکھیں ملی ہیں اس کو
وحشت کرنا بھی آ گیا ہے
بچھ جاؤں میں اس کے راستے میں
پھر بھی کیا اس سے فائدہ ہے
ہم دونوں ہی یہ تو جانتے ہیں
وہ میرے لیے نہیں بنا ہے
میرے لیے اس کے ہاتھ کافی
اس کے لیے سارا فلسفہ ہے
میری نظروں سے ہے پریشاں
خود اپنی کشش سے ہی خفا ہے
سب بات سمجھ رہا ہے لیکن
گم سم سا مجھ کو دیکھتا ہے
جیسے میلے میں کوئی بچہ
اپنی ماں سے بچھڑ گیا ہے
اس کے سینے میں چھپ کے روؤں
میرا دل تو یہ چاہتا ہے
کیسا خوش رنگ پھول ہے وہ
جو اس کے لبوں پہ کھل رہا ہے
یا رب وہ مجھے کبھی نہ بھولے
میری تجھ سے یہی دعا ہے
نظم
بیٹھا ہے میرے سامنے وہ
فہمیدہ ریاض