قدم قدم پہ مجھے یہ خیال آتا ہے
تری نظر کا سہارا ملے تو کیا کم ہے!
خزاں میں رہ کے بہاروں کی آرزو نہ کروں
جو زخم دل بھی مہک کر کھلے تو کیا کم ہے!
ہزار چاک ہیں دامان زندگی کے مگر
جو ایک چاک گریباں سلے تو کیا کم ہے!
تمام تیرہ منازل سے میں گزر جاؤں
جو ایک شمع محبت جلے تو کیا کم ہے!
وہ گیت جو مرے ہونٹوں پہ آ نہیں سکتا
وہ اشک غم کے سہارے ڈھلے تو کیا کم ہے!
رہ حیات میں دیوانگی کی منزل پر
سنبھل سنبھل دل ناداں چلے تو کیا کم ہے!
یہ گومتی یہ اودھ کی حسین رقاصہ
میں سوچتا ہوں اسے راز داں بنا ڈالوں
فضا پہ سرمئی آنچل اڑھا کے دور تلک
اسی زمیں پہ نیا آسماں بنا ڈالوں
یہ میرے اشک محبت کے پاسدار بھی ہیں
بہت ہے ایک نظر بھی جو غم کی محرم ہو
میں اس نظر سے نیا آستاں بنا ڈالوں
قدم قدم پہ مجھے یہ خیال آتا ہے
تری نظر کا سہارا ملے تو کیا کم ہے!
نظم
بہت ہے ایک نظر
باقر مہدی