ایک گردن پہ سیکڑوں چہرے
اور ہر چہرے پر ہزاروں داغ
اور ہر داغ بند دروازہ
روشنی ان سے آ نہیں سکتی
روشنی ان سے جا نہیں سکتی
تنگ سینہ ہے حوض مسجد کا
دل وہ دونا پجاریوں کے بعد
چاٹتے رہتے ہیں جسے کتے
کتے دونا جو چاٹ لیتے ہیں
دیوتاؤں کو کاٹ لیتے ہیں
جانے کس کوکھ نے جنا اس کو
جانے کس صحن میں جوان ہوئی
جانے کس دیس سے چلی کمبخت
ویسے یہ ہر زبان بولتی ہے
زخم کھڑکی کی طرح کھولتی ہے
اور کہتی ہے جھانک کر دل میں
تیرا مذہب، ترا عظیم خدا
تیری تہذیب کے حسین صنم
سب کو خطرے نے آج گھیرا ہے
بعد ان کے جہاں اندھیرا ہے
سرد ہو جاتا ہے لہو میرا
بند ہو جاتی ہیں کھلی آنکھیں
ایسا لگتا ہے جیسے دنیا میں
سبھی دشمن ہیں کوئی دوست نہیں
مجھ کو زندہ نگل رہی ہے زمیں
ایسا لگتا ہے راکشس کوئی
ایک گاگر کمر میں لٹکا کر
آسماں پر چڑھے گا آخر شب
نور سارا نچوڑ لائے گا
میرے تارے بھی توڑ لائے گا
یہ جو دھرتی کا پھٹ گیا سینہ
اور باہر نکل پڑے ہیں جلوس
مجھ سے کہتے ہیں تم ہمارے ہو
میں اگر ان کا ہوں تو میں کیا ہوں
میں کسی کا نہیں ہوں اپنا ہوں
مجھ کو تنہائی نے دیا ہے جنم
میرا سب کچھ اکیلے پن سے ہے
کون پوچھے گا مجھ کو میلے میں
ساتھ جس دن قدم بڑھاؤں گا
چال میں اپنی بھول جاؤں گا
یہ اور ایسے ہی چند اور سوال
ڈھونڈنے پر بھی آج تک مجھ کو
جن کے ماں باپ کا ملا نہ سراغ
ذہن میں یہ انڈیل دیتی ہے
مجھ کو مٹھی میں بھینچ لیتی ہے
چاہتا ہوں کہ قتل کر دوں اسے
وار لیکن جب اس پہ کرتا ہوں
میرے سینے پہ زخم ابھرتے ہیں
میرے ماتھے سے خوں ٹپکتا ہے
جانے کیا میرا اس کا رشتہ ہے
آندھیوں میں اذان دی میں نے
سنکھ پھونکا اندھیری راتوں میں
گھر کے باہر صلیب لٹکائی
ایک اک در سے اس کو ٹھکرایا
شہر سے دور جا کے پھینک آیا
اور اعلان کر دیا کہ اٹھو
برف سی جم گئی ہے سینوں میں
گرم بوسوں سے اس کو پگھلا دو
کر لو جو بھی گناہ وہ کم ہے
آج کی رات جشن آدم ہے
یہ مری آستین سے نکلی
رکھ دیا دوڑ کے چراغ پہ ہاتھ
مل دیا پھر اندھیرا چہرے پر
ہونٹ سے دل کی بات لوٹ گئی
در تک آ کے برات لوٹ گئی
اس نے مجھ کو الگ بلا کے کہا
آج کی زندگی کا نام ہے خوف
خوف ہی وہ زمین ہے جس میں
فرقے اگتے ہیں فرقے پلتے ہیں
دھارے ساگر سے کٹ کے چلتے ہیں
خوف جب تک دلوں میں باقی ہے
صرف چہرہ بدلتے رہنا ہے
صرف لہجہ بدلتے رہنا ہے
کوئی مجھ کو مٹا نہیں سکتا
جشن آدم منا نہیں سکتا
نظم
بہروپنی
کیفی اعظمی