گلشن عالم میں جب تشریف لاتی ہے بہار
رنگ و بو کے حسن کیا کیا کچھ دکھاتی ہے بہار
صبح کو لا کر نسیم دل کشا ہر شاخ پر
تازہ تر کس کس طرح کے گل کھلاتی ہے بہار
نونہالوں کی دکھا کر دم بدم نشو و نما
جسم میں روح رواں کیا کیا بڑھاتی ہے بہار
بلبلیں چہکارتی ہیں شاخ گل پر جا بجا
بلبلیں کیا فی الحقیقت چہچہاتی ہے بہار
حوض و فواروں کو دے کر آبرو پھر لطف سے
کیا معطر فرش سبزے کا بچھاتی ہے بہار
جنبش باد صبا سے ہو کے ہم دوش نشاط
ساتھ ہر سبزے کے کیا کیا لہلہاتی ہے بہار
خلق کو ہر لحظہ اپنے حسن کی رنگت دکھا
بے تکلف کیا ہی ہر دل میں سماتی ہے بہار
مجمع خوباں ہجوم عاشقاں اور جوش گل
دیکھ ان رنگوں کو کیا کیا کھلکھلاتی ہے بہار
گل رخوں کی دیکھ کر گل بازیاں ہر دم نظیر
گل ادھر خنداں ادھر دھومیں مچاتی ہے بہار
نظم
بہار
نظیر اکبرآبادی