EN हिंदी
بہانے ڈھونڈتا ہوں میں | شیح شیری
bahane DhunDta hun main

نظم

بہانے ڈھونڈتا ہوں میں

منموہن تلخ

;

بہانے ڈھونڈھتا ہوں میں
کہ دفتر سے ذرا جلدی ہی اٹھ جاؤں

(مجھے کیا دوستوں سے جا کے ملنا ہے؟)
نہیں

اک دوسرے سے ہم سبھی تنگ آئے بیٹھے ہیں
(مجھے کیا گھر پہنچنا ہے؟)

نہیں ہرگز نہیں
الٹا

بہانے ڈھونڈھتا ہوں میں
کہ جتنا ہو سکے اتنا ہی میں گھر دیر سے پہنچوں

(مجھے حاصل نہیں کیا بیوی بچوں کی محبت؟)
ہے، مگر پھر بھی نہ جانے کیوں

بہانے ڈھونڈھتا ہوں میں
انہیں کچھ عرصہ کو میں بھیج دوں باہر

کہاں لیکن
نہیں معلوم کچھ مجھ کو

تو پھر کیا میری شاموں میں
تعلق کی ہنسی اور چاپ شامل ہے

نہیں تو
پھر مجھے کیا کھائے جاتا ہے

کہ میں بندھ کر کہیں بھی رہ نہیں سکتا
بہانے ڈھونڈھتا ہوں

توڑنے کو کون سا بندھن