بڑے ناز سے آج ابھرا ہے سورج
ہمالہ کے اونچے کلس جگمگائے
پہاڑوں کے چشموں کو سونا بنایا
نئے بل نئے زور ان کو سکھائے
لباس زری آبشاروں نے پایا
نشیبی زمینوں پہ چھینٹے اڑائے
گھنے اونچے اونچے درختوں کا منظر
یہ ہیں آج سب آب زر میں نہائے
مگر ان درختوں کے سائے میں اے دل
ہزاروں برس کے یہ ٹھٹھرے سے پودے
ہزاروں برس کے یہ سمٹے سے پودے
یہ ہیں آج بھی سرد بے حال بے دم
یہ ہیں آج بھی اپنے سر کو جھکائے
ارے او نئی شان کے میرے سورج
تری آب میں اور بھی تاب آئے
ترے پاس ایسی بھی کوئی کرن ہے
جو ایسے درختوں میں بھی راہ پائے
جو ٹھہرے ہوؤں کو جو سمٹے ہوؤں کو
حرارت بھی بخشے گلے بھی لگائے
بڑے ناز سے آج ابھرا ہے سورج
ہمالہ کے اونچے کلس جگمگائے
فضاؤں میں ہونے لگی بارش زر
کوئی نازنیں جیسے افشاں چھڑائے
دمکنے لگے یوں خلاؤں کے ذرے
کہ تاروں کی دنیا کو بھی رشک آئے
ہمارے عقابوں نے انگڑائیاں لیں
سنہری ہواؤں میں پر پھڑپھڑائے
فزوں تر ہوا نشۂ کامرانی
تجسس کی آنکھوں میں ڈورے سے آئے
قدم چومنے برق و باد آب و آتش
بصد شوق دوڑے بصد عجز آئے
مگر برق و آتش کے سائے میں اے دل
یہ صدیوں کے خود رفتہ ناشاد طائر
یہ صدیوں کے پر بستہ برباد طائر
یہ ہیں آج بھی مضمحل دل گرفتہ
یہ ہیں آج بھی اپنے سر کو چھپائے
ارے او نئی شان کے میرے سورج
تری آب میں اور بھی تاب آئے
ترے پاس ایسی بھی کوئی کرن ہے
انہیں پنجۂ تیز سے جو بچائے
انہیں جو نئے بال و پر آ کے بخشے
انہیں جو نئے سر سے اڑنا سکھائے
نظم
بڑے ناز سے آج ابھرا ہے سورج
معین احسن جذبی