خوابوں سے تہی بے نور آنکھیں
ہر شام نئے منظر چاہیں
بے چین بدن پیاسی روحیں
ہر آن نئے پیکر چاہیں
بے باک لہو
ان دیکھے سپنوں کی خاطر
جانے ان جانے رستوں پر
کچھ نقش بنانا چاہتا ہے
بنجر پامال زمینوں میں
کچھ پھول کھلانا چاہتا ہے
یوں نقش کہاں بن پاتے ہیں
یوں پھول کہاں کھلنے والے
ان بدن دریدہ روحوں کے
یوں چاک کہاں سلنے والے
بے باک لہو کو حرمت کے آداب سکھانے پڑتے ہیں
تب مٹی موج میں آتی ہے
تب خواب کے معنی بنتے ہیں
تب خوشبو رنگ دکھاتی ہے
نظم
بدن دریدہ روحوں کے نام ایک نظم
افتخار عارف