EN हिंदी
بد گمان | شیح شیری
bad-guman

نظم

بد گمان

سعید احمد

;

تمہارے گلے میں
نئے خواب کے موتیوں کی سنہری سی مالا

ہماری نہیں ہے
سمندر وہ جس پر

تمہارے قدم کشتیاں ہوں
ہمیں صرف درس فنا ہے

ہمارے لیے تو
کسی اجنبی سی صدا کے بھنور سے نکلنا بھی ممکن نہیں ہے

ہمیں آشنا سی نگاہوں سے
سبزے میں لپٹی ہوا نے بلایا تو

ہم گر پڑیں گے
خزاں کے شجر سے

کوئی آخری پھول بن کر
ہمارے ہر اک آئینے کا تو شیوہ ہے بس

ٹوٹتے دل کے احساس سے ٹوٹ جانا
قیافہ لگانا

بھلا کون سی آنکھ نمکین سے جھوٹ کے پانیوں سے بھری ہے
بھلا کون سے ہونٹ شیرینیاں بانٹتے ہیں

شروعات چاہت میں ایسا قیافہ لگانا نہیں جانتے ہم