اے بچپنے کی دنیا تو یاد آ رہی ہے
دل سے مری صدائے فریاد آ رہی ہے
راحت سنا رہی تھی افسانہ سلطنت کا
تھی ماں کی گود مجھ کو کاشانہ سلطنت کا
وہ گھر کہ دور جس سے تھی گردش زمانہ
آزادیوں کا میری آباد آشیانہ
پھرتی ہے اب نظر میں تصویر اس مکاں کی
عرش بریں سے بہتر تھی سرزمیں جہاں کی
نازک مزاج بن کر وہ روٹھنا مچلنا
صحن مکاں میں دن بھر وہ کودنا اچھلنا
اللہ رے وہ تخیل اللہ رے ساز و ساماں
دنیا کی سلطنت تھی اس زندگی پہ قرباں
اس عہد عافیت میں اک بار پھر سلا دے
اے میرے عہد ماضی پھر اک جھلک دکھا دے
باغ جہاں میں رکھا ان شادیوں نے مجھ کو
راحت کی لوریاں دیں آزادیوں نے مجھ کو
بے فکر زندگی تھی خود ہوش مجھ کو کب تھا
اک کیف بے خودی تھا مست مے طرب تھا
اے عمر رفتہ تو نے کی مجھ سے بیوفائی
آ جا پلٹ کے دم بھر میں ہوں ترا فدائی
دل میں شرارتیں تھیں کیسے غضب کی پنہاں
رگ رگ میں بجلیاں تھیں جوش طرب کی پنہاں
ہوں اپنی زندگی کا اندازہ کرنے والا
جنت سے لا کے تو نے دوزخ میں مجھ کو ڈالا
نظم
بچپنے کی یاد
عزیز لکھنوی