EN हिंदी
بچپن | شیح شیری
bachpan

نظم

بچپن

نتن نایاب

;

وہ گلیوں میں بارش وہ گل نار چہرے
تمناؤں کے وہ بھنور گہرے گہرے

بھری دھوپ میں وہ پتنگیں پکڑنا
''وہ باتوں ہی باتوں میں لڑنا جھگڑنا''

کوئی کاش مجھ پر یہ احسان کر دے
کی بچپن کے کچھ پل میرے نام کر دے

میں اب اس پرانے محلے میں جا کر
خدا سے یہ فریاد کرنے لگا ہوں

میں بچپن تجھے یاد کرنے لگا ہوں
وہ آنگن میں لہراتے ساون کے جھولے

رہے یاد ہر دم کبھی ہم نہ بھولے
وہ گڈے وہ گڑیا وہ پیارے کھلونے

وہ ننھی سی آنکھوں کے سپنے سلونے
نہ آگے کی چنتا نہ پیچھے کے غم تھے

نہ تھی فکر کوئی نہ رنج و الم تھے
پلٹ کر سہانے پلوں کے صفوں کو

میں دل کو پھر آباد کرنے لگا ہوں
میں بچپن تجھے یاد کرنے لگا ہوں

کبھی ننگے پیروں سے گلیوں میں جانا
وہ بارش کے پانی میں کشتی چلانا

وہ خوابوں خیالوں میں پریوں کی باتیں
وہ ہولی کے دن وہ دوالی کی راتیں

وہ جب ساتھ دنیا کے بندھن نہیں تھے
وہ پل خوبصورت تھے وہ دن حسیں تھے

وہ لمحے وہ یادیں سجا کر کے یارو
یہ ناشاد دل شاد کرنے لگا ہوں

میں بچپن تجھے یاد کرنے لگا ہوں