EN हिंदी
بچپن | شیح شیری
bachpan

نظم

بچپن

فاروق نازکی

;

جب ہلکی پھلکی باتوں سے
نغموں کی طنابیں بنتی تھیں

جب چھوٹے چھوٹے لفظوں سے
افکار کی شمعیں جلتی تھیں

ہر چہرہ اپنا چہرہ تھا
ہر درپن اپنا درپن تھا

جو گھر تھا ہمارا ہی گھر تھا
ہر آنگن اپنا آنگن تھا

جو بات لبوں تک آتی تھی
وہ دل سے نہیں کر آتی تھی

کانوں میں امرت بھرتی تھی
اور دل کو چھوکر جاتی تھی

وہ وقت بہت ہی پیارا تھا
وہ لمحے کتنے میٹھے تھے

جس وقت کی اجلی راہوں پر
آغاز تو ہے انجام نہیں

جس وقت کی اجلی راہوں پر
آغاز تو ہے انجام نہیں

وہ وقت کہاں روپوش ہوا
جس وقت کا کوئی نام نہیں