ہم جن خوابوں کے پیچھے بھاگتے ہیں
وہ آنکھ کھلتے ہی ٹوٹ جاتے ہیں
ہم جن راستوں پر چلنا چاہتے ہیں
وہ رستے نہ جانے کیوں اجنبی بن جاتے ہیں
ہماری آنکھیں انتظار کرنا بھول چکی ہیں
ہمارے آنسو خشک ہو چکے ہیں
کسی کی یاد اب ہمیں ستاتی نہیں
اب نہ کوئی درد ہے
نہ کوئی خلش
ہم نے کاٹ پھینکے وہ اعضا جو ہمیں لہو لہو کر چکے
ہاں
اپنے آپ سے کچھ بچھڑنے کا کچھ ملال تو ہے
اپنے آپ پر ہنسنے کا تھوڑا غم بھی ہے
جو جھوٹ ہم نے اپنی ذات سے بولے
ان کی چبھن بھی ہے
مگر اس کے سوا ہم کیا کرتے
زندگی کو کوئی تو دینا تھا
بنا کسی سرشاری کے
کیونکہ ہم جانتے ہیں
ہماری محبت سڑ چکی ہے
نظم
بازیافت
انجلا ہمیش