ایک مجبور کا تن بکتا ہے من بکتا ہے
ان دکانوں میں شرافت کا چلن بکتا ہے
سودا ہوتا ہے اندھیروں میں گناہوں کا یہاں
زندگی نام ہے ہنستی ہوئی آہوں کا یہاں
زندہ لاشوں کے لیے سرخ کفن بکتا ہے
جھوٹی الفت کے اشاروں پہ وفا رقص کرے
چند سکوں کے چھناکے پہ حیا رقص کرے
حسن معصوم کا بے ساختہ پن بکتا ہے
بیچ کر اپنا لہو آگ کمائی جائے
آبرو قوم کی سیجوں پہ لٹائی جائے
سر بازار ہوس پیار کا فن بکتا ہے
نظم
بازار
مظفر وارثی