رائیگاں وقت کے سناٹے میں
ایک آواز تھی پیلی آواز
کوئی دھڑکن تھی گزشتہ دل کی
گربۂ شب کی چمکتی آنکھیں
تاک میں تھیں کہ کہیں سے نکلے
موش بے خواب کوئی
بند آسیب زدہ دروازے
آپ ہی آپ کھلے بند ہوئے
حجرۂ تار میں جیسے کوئی
روح بھٹکی ہوئی در آئی تھی
روح کب تھی وہ نری خواہش تھی
آگ تھی
آگ پینے کی ہوس جاگ اٹھی
رائیگاں وقت کے سناٹے میں
نظم
باز داشت
مغنی تبسم