EN हिंदी
باطن | شیح شیری
baatin

نظم

باطن

جاوید ناصر

;

دور حاضر کے تم
ایک شرمندہ انسان ہو

میں جو چیخا تو میری انا ٹوٹ کر
جنگلوں کی تپش بن گئی

داستاں کی خلش بن گئی
قہقہے بے صدا قہقہے

مکڑیوں کی فضا میں اڑاتے رہے
تیز مضبوط قوموں کے ناراض قصے سناتے رہے

میں پریشان
نیندوں کے بادل ہٹا کر

بجھی رات کے سادہ پردے اٹھا کر
جو خیمے سے نکلا تو آواز آئی

ابھی تم نے دنیا بھی دیکھی نہیں ہے