EN हिंदी
بات پھانسی کے دن کی نہیں | شیح شیری
baat phansi ke din ki nahin

نظم

بات پھانسی کے دن کی نہیں

شارق کیفی

;

آکسیجن کی ٹیوب
اور پھانسی کے پھندے میں ویسے بھی کیا فرق ہے

بات پھانسی یا پھانسی کے دن کی نہیں
موت کی بھی نہیں

بات تو لاش کے مضحکہ خیز لگنے کی ہے
فکر لاشے کی ہے

جانے کیسی لگے؟
ایک فٹ لمبی پتلی سی گردن

مرے اتنے بھاری بدن پر
اور زباں؟

وو جو سنتے ہیں اتنی نکل آئے گی منہ کے باہر
کالی مائی کی صورت

کہیں وو ڈرا تو نہیں دے گی بچوں کو میرے
اور وہ سب نیک انسان جو غسل دیں گے مرے جسم کو

سو بھی پائیں گے کیا چین سے؟
یا مرا بھوت ان کو ڈراتا رہے گا مہینوں تلک

میں نہیں چاہتا کوئی مجھ سے ڈرے
کوئی مجھ پر ہنسے

زندگی اک لطیفے کی صورت کٹی کچھ شکایت نہیں
ہاں مگر

لاش کی شکل میں مضحکہ خیز لگنے سے ڈرتا ہوں میں
بات اتنی سی ہے

بات پھانسی یا پھانسی کے دن کی نہیں