وہ جو کہتے ہیں کسی ٹیڑھ بنا کوئی بات نہیں ہو سکتی
سو آن کی آن میں ڈور پلٹ کر ماہی گیر پہ آن پڑی
انہی موسم میں کوئی تم سا دریا پار سے آیا تھا
اور ساری بستی روئی تھی
اس دن بستی میں رونے والوں کا دن تھا اور تم نے کہا تھا
یہ لوگ سمندر متھ کر پیتے تھے اب روتے ہیں
اور تم نے کہا تھا
ان لوگوں سے تو ساحل پر کھو جانے والے بچے اچھے ہیں
جو ریت پہ کھیلتے کھیل کو پانی کر دیتے ہیں
سو ٹیڑھ میں تم نے بات کہی
ان لوگوں سے تو ساحل پر کھو جانے والے بچے اچھے ہیں
وہ جو کہتے ہیں ہر بات میں کوئی ٹیڑھ سی ہو تو بہتر ہے
ان لوگوں سے سر شام ملو تو بات نہیں ہو سکتی
اور دن میں ان کے ساتھ کئی دوراہے چلتے ہیں
اور رات میں ان کے گھر بس نیند کا سودا ہو سکتا ہے
اور نیند کدو کی بیل ہے سوکھ گئی تو ساحل پر پیغمبر بچہ رہ جاتا ہے
سو ٹیڑھ میں تم نے بات کہی
اب پیغمبر سے بات نہیں ہو سکتی
وہ جو کہتے ہیں کسی ٹیڑھ بنا کوئی بات نہیں ہو سکتی
سو آن کی آن میں ڈور پلٹ کر ماہی گیر پر آن پڑی
نظم
بات نہیں ہو سکتی
محمد انور خالد