تو آفاق سے قطرہ قطرہ گرتی ہے
سناٹے کے زینے سے
اس دھرتی کے سینے میں
تو تاریخ کے ایوانوں میں در آتی ہے
اور بہا لے جاتی ہے
جذبوں اور ایمانوں کو
میلے دسترخوانوں کو
تو جب بنجر دھرتی کے ماتھے کو بوسہ دیتی ہے
کتنی سوئی آنکھیں کروٹ لیتی ہیں
تو آتی ہے
اور تری آمد کے نم سے
پیاسے برتن بھر جاتے ہیں
تیرے ہاتھ بڑھے آتے ہیں
گدلی نیندیں لے جاتے ہیں
تیری لمبی پوروں سے
دلوں میں گرہیں کھل جاتی ہیں
کالی راتیں دھل جاتی ہیں
تو آتی ہے
پاگل آوازوں کا کیچڑ
سڑکوں پر اڑنے لگتا ہے
تو آتی ہے
اور اڑا لے جاتی ہے
خاموشی کے خیموں کو
اور ہونٹوں کی شاخوں پر
موتی ڈولنے لگتے ہیں
پنچھی بولنے لگتے ہیں
تو جب بند کواڑوں میں اور دلوں پر دستک دیتی ہے
ساری باتیں کہہ جانے کو جی کرتا ہے
تیرے ساتھ ہی
بہہ جانے کو جی کرتا ہے
نظم
بارش
ابرار احمد