EN हिंदी
بارش کا پہلا قطرہ | شیح شیری
barish ka pahla qatra

نظم

بارش کا پہلا قطرہ

اسماعیلؔ میرٹھی

;

گھنگھور گھٹا تلی کھڑی تھی
پر بوند ابھی نہیں پڑی تھی

ہر قطرہ کے دل میں تھا یہ خطرہ
ناچیز ہوں میں غریب قطرہ

تر مجھ سے کسی کا لب نہ ہوگا
میں اور کی گوں نہ آپ جوگا

کیا کھیت کی میں بجھاؤں گا پیاس
اپنا ہی کروں گا ستیاناس

خالی ہاتھوں سے کیا سخاوت
پھیکی باتوں میں کیا حلاوت

کس برتے پہ میں کروں دلیری
میں کون ہوں کیا بساط میری

ہر قطرہ کے دل میں تھا یہی غم
سرگوشیاں ہو رہی تھیں باہم

کھچڑی سی گھٹا میں پک رہی تھی
کچھ کچھ بجلی چمک رہی تھی

اک قطرہ کہ تھا بڑا دلاور
ہمت کے محیط کا شناور

فیاض و جواد و نیک نیت
بھڑکی اس کی رگ حمیت

بولا للکار کر کہ آؤ!
میرے پیچھے قدم بڑھاؤ

کر گزرو جو ہو سکے کچھ احسان
ڈالو مردہ زمین میں جان

یارو! یہ ہچر مچر کہاں تک
اپنی سی کرو بنے جہاں تک

مل کر جو کرو گے جاں فشانی
میدان پہ پھیر دوگے پانی

کہتا ہوں یہ سب سے برملا میں
آتے ہو تو آؤ لو چلا میں

یہ کہہ کے وہ ہو گیا روانہ
''دشوار ہے جی پہ کھیل جانا''

ہر چند کہ تھا وہ بے بضاعت
کی اس نے مگر بڑی شجاعت

دیکھی جرأت جو اس سکھی کی
دو چار نے اور پیروی کی

پھر ایک کے بعد ایک لپکا
قطرہ قطرہ زمیں پہ ٹپکا

آخر قطروں کا بندھ گیا تار
بارش لگی ہونے موسلا دھار

پانی پانی ہوا بیاباں
سیراب ہوئے چمن خیاباں

تھی قحط سے پائمال خلقت
اس مینہ سے ہوئی نہال خلقت

جرأت قطرہ کی کر گئی کام
باقی ہے جہاں میں آج تک نام

اے صاحبو! قوم کی خبر لو
قطروں کا سا اتفاق کر لو

قطروں ہی سے ہوگی نہر جاری
چل نکلیں گی کشتیاں تمہاری