واپسی پر
رات کے کالے سیہ جھولے میں لیٹے
اس نے سوچا تھا
کہ وہ بھی
دوسروں کی طرح
ہنستی گنگناتی زندگی سے
انس کی دہلیز پر جا کر ملے گا
پوچھے گا اس سے
کرن سورج کی کیسے
چومتی ہے پھول کو
اور جگمگا دیتی ہے مٹی دھول کو
ٹھنڈی ہوا کیا ہے
گھٹا کیا ہے
پرندے چہچہاتے کس ادا سے ہیں
مگر کچھ بھی ہوا ایسا نہیں
وہ آج بھی
ویران کھڑکی سے اڑا کر
خواب کی سب راکھ
جلتی دھوپ کو سر پر سمیٹے
اندھے بہرے گونگے
احساسات سے مملو
سفر پر گامزن
پھر ہو گیا ہے
اور اس کی سوچ
بالکل بانجھ سی لگنے لگی ہے
نظم
بانجھ سی لگنے لگی ہے
جعفر ساہنی