اکتوبر ہے
کہرے کی اک میلی چادر تنی ہوئی ہے
اپنے گھر میں بیٹھا میں کھڑکی سے باہر دیکھ رہا ہوں
باہر سارے پیڑ
دریدہ پیلے یرقانی پتوں کے
مٹ میلے ملبوس میں لپٹے نصف برہنہ
باد خزاں سے الجھ رہے ہیں
حرف حرف پتوں کا ابجد
پت جھڑ کی بے رحم ہوا کو سونپ رہے ہیں
میں بھی الف سے چلتا چلتا
اب یائے معروف پہ پاؤں ٹکا کر بیٹھا
ایک قدم آگے مجہول کو دیکھ رہا ہوں
ننگے بچے دیمک چاٹے
عمر رسیدہ پیڑ بھی اپنا ابجد کھو کر
برف کا بوجھ نہیں سہہ پاتے گر جاتے ہیں
اکتوبر سے چل کر میں بھی
اپنے ابجد کی قطبینی یہ کی یخ بستہ چوکھٹ پر
جوں ہی شکستہ پاؤں رکھوں گا گر جاؤں گا
باد خزاں کو کیا پروا ہے
اس کو تو پیڑوں کو گرانا ہی آتا ہے
نظم
باد خزاں کو کیا پروا ہے
ستیہ پال آنند