فضائے عشق کو ماتم گسار چھوڑ گیا
جہاں میں نقش وفا یادگار چھوڑ گیا
پیام دیدۂ افسانہ کار چھوڑ گیا
حکایت خم گیسوئے یار چھوڑ گیا
نظر میں اک خلش انتظار چھوڑ گیا
جگر میں اک تپش درد کار چھوڑ گیا
سنا کے راہ محبت میں نغمہ ہائے جنوں
قبائے لالہ و گل تار تار چھوڑ گیا
افق کے پار گیا خندہ زن بہاروں پر
چمن کو غمزدۂ و سوگوار چھوڑ گیا
بساط خاک کو دے کر بہار لالہ و گل
چمن کے سینے پہ زخم بہار چھوڑ گیا
شب بہار میں تاروں کی روشنی کے لئے
متاع گریۂ خوننابہ بار چھوڑ گیا
پٹک کے جام زمانے کی بے ثباتی پر
نشان ہستیٔ ناپائیدار چھوڑ گیا
شراب و شعر کی رنگیں فضا پہ لہرا کر
سرود خمکدۂ نو بہار چھوڑ گیا
نظم
بیاد اختر شیرانیؔ
نیر واسطی